۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
مولانا سید تقی رضا عابدی

حوزہ/اگر صدام ہی کو بٹھانا مقصود تھا تو پھر صدام کو ہٹایا ہی کیوں گیا،اس کا جواب یہ ہے پرانا صدام اب اُنکے کام کا نہیں رہ گیا تھا۔

مضمون نگار: حجت السلام مولانا سید تقی رضا عابدی،تقی آغا

حوزہ نیوز ایجنسی | عراق پھر ایک بار اختلافات کی آرامگاہ   بنتا جارہا ہے، پھر کسی صدام کو بٹھانے کی تیاریاں کی جارہی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صدام ہی کو بٹھانا مقصود تھا تو پھر صدام کو ہٹایا ہی کیوں گیا،اس کا جواب یہ ہے پرانا صدام اب اُنکے کام کا نہیں رہ گیا تھا، اس کی اب ایکسپائرڈیٹ ہو چکی تھی، اب وہ تاریخ کے کوڈے دان میں پھیکے جانے کے ہی قابل تھا۔ وہ جدید نسل کے عراق کی قیادت کے قابل ہی نہیں تھا، لہٰذا کسی نئے صدام کی ضرورت محسوس ہوئی، عراقیوں کو بھی اعتماد میں لینا تھا کہ امریکا ان کے لئے کوئی بہتر انتظام کرنے والا ہے، ورنہ وہ خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کر لیتے، ایسی صورت میں پھر امریکہ کو قدم جمانے کا موقع نہ ملتا، بھلا کس بہانے سے عراق میں داخل ہوتا، لہٰذا عراق کو نرم نوالہ سمجھکر نگل گیا، وہاں کے میوزیم لوٹ لئے گئے، وہاں کے خزانے لوٹ لئے گئے۔

پھر سے ہزاروں نوجوانوں کا قتل ہوا، عراق کے شہر میدان جنگ میں بدل دیے گئے، زیارات پر پابندی لگا دی گئی، لاکھوں جانیں گئی اور بے ثباتی مقدر بنتی چلی گئی، ایک کے بعد ایک وزیراعظم بدلتے رہے، ساری کوشش احمد چلابی اور عیاض علوی کے جیسے افراد کو تخت نشین کرنے کے لئے، کی جاتی رہی۔

عراق کے دیواریں بے عدالتی اور نا انصافی کا رونا روتی رہیں، وہ اپنے لئے ایک نیا صدام ڈھونڈ رہے تھے، ان کی جو جدید دور کی سازشوں کو پورا کر سکے، ایسا صدام جو جدید ساز پر ناچ سکے، پھر ایک بار حوزات علمیہ پر پابندی مجتہدین اور مراجع کو خانہ نشین کرنا اور مظلوموں پر شکنجا کسا جانا اور سعودی عرب سے قربت بڑھانا اور ایران سے دور کرنا
جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پھر ایک بار عراق کو تاراج کرنا چاہتے ہیں، ظلم و بربریت کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، اربعین پر پابندی عائد کرنا اور زائرین کے لیے مشکلات بڑھانا چاہتے ہیں، یہ سب ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے، دشمن طاقتیں کبھی بھی عراق کو ایران کی طرح مستقل نہیں دیکھ سکتيں، ولایت فقیہ کا نظام تو دور کی بات ہے، وہ مراجع کی بالادستی بھی عراق میں پسند نہیں کرتے، عراقی عوام کی جہالت ان کا سب سے بڑا اُن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، بدقسمتی سے عراق میں جہالت بھی ہے اور افلاس بھی، غربت و ناداری بھی ہے اور بے روزگار نوجوانوں کی کثرت، یتیم اور لاوارث بچوں کی بہتات، یہ سب عراق کا مقدر بن چکی ہیں۔

ایک طرفہ تماشا یہ ہے کہ عراقی عوام میں نادانی بھی ہے، اور غفلت بھی، بے جا رسومات بھی ہے اور خرافات بھی، نوجوان نسل کے سامنے اس طرح سینکڑوں چیلنجز ہیں، کس طرح کرے گا عراق، ان سب کا مقابلہ، سازشوں کے جال ایسے بچھائے جاتے ہیں کہ عوام کو بھنک بھی نہیں لگتی،
عراق کی تباہی کو یقینی بنانے کے لئے امریکا اور اسرائیل نے نئے سازشوں کے جال بچھانا شروع کر دیے، کبھی فتنہ داعش کو جنم دیا، اور جواب میں جب الحشد الشعبی بنائی گئی ہے، تو اب اس کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے،
اب نوجوان نسل میں تبدیلی ضرور آ رہی ہے، لیکن امریکہ کا منحوس سایہ جب تک عراق پر ہے، نحوست کا سلسلہ باقی رہے گا۔

عراقی عوام خود اپنا فیصلہ کرنے سے عاجز ہے،عراقی عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکتے ان کی یہ پارلیمنٹ، یہ کابینہ اور یہ حکومت، سب ایک نمائش ہے، کہا جا سکتا ہے کہ عراق ابھی امریکی چنگل سے آزاد نہیں ہوا، ایران چاہتا ہے کہ اپنے پڑوسی ملک عراق کی ترقی کے لئے مدد کرے، جب کہ بعض حمایتی عراق کی اس طرح کا تقاضہ کرتی بھی ہے، جو حقیقت سے واقف ہیں، کہ ایرانی ہمارے لئے فرشتے کا کام کر سکتا ہے، اور اسی کی سرپرستی اور نگرانی میں عراقی ڈیویلپمنٹ کا کام انجام پا سکتا ہے، جس سے دونوں ملکوں کا فائدہ ہوگا۔

لیکن امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران عراق سے قریب ہو، وہ اصل میں نہ عراق کا فائدہ چاہتا ہے اور نہ ہی ایران کا، جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کو آپس میں لڑانے اور نزدیک نہ ہونے دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، امریکہ عراق میں ایران کو دیکھنا نہیں چاہتا، جس کے لیے وہ کسی کی بھی مدد کرنے کے لئے تیار ہے، ہر ایران مخالف گروھوں سے وہ روابط بڑھانا چاہتا ہے، بعض ایران سے مخالفت رکھنے والے جو علما و مجتہدین ہیں، انہیں بھی وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا، آج عراق کے جلاوطن کئے لیڈر لندن اور امریکا میں ہے، انہیں وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے، بڑی بڑی کانفرنسیں کروائی جاتی ہیں اور ایران مخالف علما کی ہمت افزائی کی جاتی ہے، اور انہیں ایران کے خلاف آگ لگانے کی ترغیب دی جاتی ہیں، خدا خیر کرے،انشاءاللہ دشمن کا یہ حربہ کامیاب نہ ہوگا۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .